دیوبندیوں کی مرتب شدہ کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ ‘‘میں لکھا ہے
ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا ۔
حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی کے مرید و شاگرد سب جمع تھے۔
اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے۔ کہ حضرت گنگوہی نے حضرت نانوتوی سے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا کہ یہاں ذرا لیٹ جائو۔ حضرت نانوتوی کچھ شرما گئے۔ مگر حضرت (گنگوہی) نے پھر فرمایا تو مولانا (نانوتوی)بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے۔ حضرت (گنگوہی)بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا (نانوتوی)کی طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیاجیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کی تسکین کرتا ہے۔ مولانا (نانوتوی) ہر چند فرماتے کہ میاں کیا کر رہے ہو یہ لوگ کیا کہیں گے۔ حضرت (گنگوہی) نے فرمایا کہ لوگ کہیں گے کہنےدو۔‘‘
ارواحِ ثلاثہ: ص 228
عشق معشوقی کا یہ کھیل بھرے مجمع کے سامنے کھیلا گیا تھا ، جس پر نانوتوی صاحب بار بار شرما جاتے تھے اور لوگوں کی موجودگی کا احساس بھی گنگوہی صاحب کو دلاتے تھے ۔