اس مجذوبانہ معما کو کوئی نہ سمجھا لیکن والدہ صاحبہ نے اپنی خداداد اور نور فراست سے اس کو حل کیا اور فرمایا کہ حافظ صاحب کا یہ مطلب ہے کہ لڑکوں کے باپ فاروقی ہیں اور ماں علوی اور اب تک جو نام رکھے گئے وہ باپ کے نام پر رکھے گئے یعنی فضل حق وغیرہ اب کی بار جو لڑکا ہو اس کا نام نا نہال کے ناموں کے مطابق رکھا جائے۔ جس کے آخر میں علی ہو۔
پھر فرمایاکہ انشاء اللہ اس کے دو لڑکے ہوں گے اور زندہ رہیں گےایک کا نام اشرف علی خان رکھنا دوسرے کا اکبر علی خان۔ نام لیتے وقت خان اپنی طرف سے جوش میں آ کر بڑھا دیا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت کیا وہ پٹھان ہوں گے؟ فرمایا نہیں اشرف علی اور اکبر علی نام رکھنا۔
یہ بھی فرمایاکہ ایک میرا ہو گا وہ مولوی ہو گا اور حافظ ہو گااور دوسرا دنیا دار ہو گا