بہر کیف سعد (بن ابی وقاص) والی حدیث کہ معاویہ نے انہیں حضرت علی کو برا بھلا و گالیاں دینے کا کہا تو انہوں نے انکار کر دیا، اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی شان میں تین ایسی باتیں کیں،میں کبھی گالی و برا بھلا نہ کہوں۔ اگر ان میں سے مجھے ایک فضیلت بھی مل جاتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ عزیز ہوتی۔ یہ حدیث صحیح ہے، اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔
منہاج السنۃ، جلد ۵، صفحہ ۴۲۔
تبصرہ: احادیث میں موجود ہے کہ جس نے علی کو گالی دی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گالی دی، مسند احمد ابن حنبل میں بسندِ صحیح یہ حدیث موجود ہے مسند احمد بن حنبل، جلد ۴۴، صفحہ ۳۲۸، حدیث نمبر ۲۶۷۴۸۔
کیا معاویہ کا یہ اقدام بھی اجتہادی غلطی تھی یا بغاوت،ظلم ، عناد، حسد، بغضِ مرتضوی؟ صحیح مسلم میں ہے کہ علی سے بغض منافق رکھے گا۔۔۔ یا یہ گالیاں دینے والی سب روایات جھوٹی ہیں؟
حضرت علی علیه السلام کو ساٹھ سال تک منبروں ، نشستوںمیں وعظ و نصیحت اور خطباء کے ذریعے،اور درس وتدریس کے ذریعے، خطباء اور محدثین کے درمیان معاویہ کے حکم سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید و موٴثر ھوا کہ کہتے ھیں کہ ایک دن حجاج نے کسی مرد سے غصہ میں بات کی اور وہ شخص قبیلہ ٴ ”بنی ازد“ کا رہنے والا تھا،اس نے حجاج کو مخاطب کرتے ھوئے کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو، ھم بافضیلت لوگوں میں سے ھیں۔ حجاج نے اس کے فضائل کے متعلق سوال کیا اس نے جواب دیا کہ ھمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ھے کہ اگر کوئی چاہتا ھے کہ ھم سے تعلقات بڑھائے تو سب سے پھلے ھم اس سے یہ سوال کرتے ھیں کہ کیا وہ ابوتراب کو دوست رکھتا ھے یا نھیں؟