غیر شیعہ افراد کیطرف سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے – کہ مولا امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کے نام خلفاء ثلاثہ کے نام پر کیوں رکھے ؟ آیا یہ نام رکھنا اہلبیت ع کا ان سے اظہارِ محبت کے مترادف نہیں ہے ؟
ہمارا یہ دعوٰی ہے – کہ کسی کے نام پر نام رکھ دینا ہرگز اس شخصیت سے محبت کرنے کے مترادف نہیں ہے – مثال کے طور پر صرف دو ناموں کی مثال دینے پہ ہی اکتفا کرتا ہوں
ایک نام ہے فیروز – اور ایک نام ہے عبدالرحمن – دونوں نام اہل سنت برادران کے ہاں بکثرت پائے جاتے ہیں – جیسا کہ آپ سب جانتے بھی ہیں – کہ (ابو لولو) فیروز خلیفہ ثانی حضرت عمر کا قاتل ہے – جبکہ عبدالرحمن مسلمانوں کے خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا قاتل تھا
ابوبکر ۔۔۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں – کہ ابو بکر نام نہیں بلکہ کنیت ہے ایک قول کے مطابق , اس بیٹے کا نام امیرا المومنین علیہ السلام نے عبد اللہ رکھا تھا – جن کی عمر واقعہ کربلا کے وقت ٢٥ برس تھی
ابوالفرج اصفھانی لکھتے ھیں قتل عبداللہ بن علی بن ابی طالب , وھو ابن خمس و عشرین سنة ولا عقب له,. عبداللہ ابن علی پچیس سالہ تھے – جس وقت کربلا میں شھید ہوئے – (مقاتل الطالبین , ج 1, ص 22 )
جبکہ بعض ” محمد اصغر” کہتے ہیں التنبیہ و الاشراف، ص ۲۷۵؛ الارشاد، ج ۱ ص ۲۵۴ اب اس کو مدنظر رکھتے ہوئے چند باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں
: اگر یہ طے تھا کہ امام علی ع اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھیں – تو آپ کو ابوبکر کے اصلی ناموں (عبد الکعبہ , عتیق,,,اسی طرح دوسرے اسماء جن میں اختلاف ھے) میں سے کوئی ایک نام رکھنا چاھیئے تھا کنیت سے نھیں
امام علی ع کے بیٹے کی کنیت ابوبکر تھی ( نام نھیں ) اور کنیت کا انتخاب صرف باپ کے ذمہ نھیں ھوتا – بلکہ خود انسان ان واقعات کو دیکھتے ہوئے بھی اپنی کنیت مشخص کر سکتا ھے – جو اسکی زندگی میں وقوع پزیر ہوئے (جیسا کہ خود امام ع کی ابو تراب رسول اللہ ص نے رکھی)
عمر یا امر
یہ نام عمر بهی اس وقت کے مشہور ناموں میں سے ایک
عمر بن الحكم السلمي ؛ 2. عمر بن الحكم البهزي ؛ 3 . عمر بن سعد ابوكبشة الأنماري ؛ 4. عمر بن سعيد بن مالك ؛ 5. عمر بن سفيان بن عبد الأسد ؛ 6. عمر بن ابوسلمة بن عبد الأسد ؛ 7. عمر بن عكرمة بن ابوجهل ؛ 8. عمر بن عمرو الليثي ؛ 9. عمر بن عمير بن عدي ؛ 10. عمر بن عمير غير منسوب ؛ 11. عمر بن عوف النخعي ؛ 12. عمر بن لاحق؛ 13. عمر بن مالك ؛ 14. عمر بن معاوية الغاضري ؛ 15. عمر بن وهب الثقفي ؛ 16. عمر بن يزيد الكعبي ؛ 17. عمر الأسلمي ؛ 18. عمر الجمعي ؛ 19. عمر الخثعمي ؛ 20. عمر اليماني. 21. عمر بن الخطاب. العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، (الإصابة في تمييز الصحابة، ج4، ص587 ـ 597، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412 – 1992)
– عثمان
ﻧﺎﻡ "ﻋﺜﻤﺎﻥ "بهی ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺭﺍﺋﺞ ﺍﺳماء ﻣﯿﮟ سے ﺗﮭﺎ – ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﻨﺎﺑﻊ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺍﮐﺮﻡ ( ﺹ ) ﮐﮯ 25 ﺍﺻﺤﺎﺏ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ "ﻋﺜﻤﺎﻥ ” ﺗﮭﺎ عثمان بن ابوجهم الأسلمي ؛ 2. عثمان بن حكيم بن ابوالأوقص ؛ 3. عثمان بن حميد بن زهير بن الحارث ؛ 4. عثمان بن حنيف بالمهملة ؛ 5. عثمان بن ربيعة بن أهبان ؛ 6. عثمان بن ربيعة الثقفي ؛ 7. عثمان بن سعيد بن أحمر ؛ 8. عثمان بن شماس بن الشريد ؛ 9. عثمان بن طلحة بن ابوطلحة ؛ 10. عثمان بن ابوالعاص ؛ 11. عثمان بن عامر بن عمرو؛ 12. عثمان بن عامر بن معتب ؛ 13. عثمان بن عبد غنم ؛ 14. عثمان بن عبيد الله بن عثمان ؛ 15. عثمان بن عثمان بن الشريد ؛ 16. عثمان بن عثمان الثقفي ؛ 17. عثمان بن عمرو بن رفاعة ؛ 18. عثمان بن عمرو الأنصاري ؛ 19. عثمان بن عمرو بن الجموح ؛ 20. عثمان بن قيس بن ابوالعاص؛ 21. عثمان بن مظعون؛ 22. عثمان بن معاذ بن عثمان ؛ 23. عثمان بن نوفل زعم ؛ 24 . عثمان بن وهب المخزومي ؛ 25. عثمان الجهني ؛ 26. عثمان بن عفان. (العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 4، ص 447 ـ 463، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412 – 1992)
اب صرف ایک سوال ہماری طرف سے ؟؟
اگر نام رکھنا محبت کی ہی علامت ہے – تو پھر آخر یہ یکطرفہ محبت کیسی ؟ بقول آپکے اگر آپکی بات کو درست مان بھی لیا جائے کہ اہلبیت ع نے تو محبت کیوجہ سے اولاد کے یہ نام رکھے – مگر کیا یہی محبت ان مخصوص افراد (ثلاثہ) کو اہلبیت ع کیساتھ ہرگز نہیں تھی – کیونکہ انکی تو پوری نسل میں ” علی ۔ حسن اور حسین ” کا نام ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا – کیا آپ خلفاء ثلاثہ کے فرزندان کے نام علی ع کی محبت میں علی – حسن ع کی محبت میں حسن – اور حسین ع کی محبت میں حسین ثابت کر سکتے ہیں ؟