١٠ محرم کا روزہ – بدعت بنوامیہ
تعلیمات اہل بیت ع کے مطابق عاشورہ ١٠ محرم کے دن روزہ رکھنا بدعت اور سنت بنو امیہ ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ اہلسنت کے ہاں یہ روزہ کیسے رائج ہوا جو کہ اب حسینیت کے خلاف یزیدیت کی پہچان بن چکا ہے
اہلسنت حضرات بخاری کی جس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ ١٠ محرم کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے وہ یہ ہے
عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها قَالَتْ: کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ.
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ: زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول خدا بھی اس دن روزہ رکھتے تھے اور جب رسول خدا مدینہ آئے تو بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور وہ دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ ماہ رمضان کا روزہ واجب ہو گیا کہ اسکے بعد رسول خدا نے عاشورا کے دن روزہ رکھنا ترک کر دیا اور حکم دیا کہ جس کا دل چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا دل نہ چاہے وہ اس دن روزہ نہ رکھے۔
صحیح البخاری، ج 2، ص 250، ح 2002
روایت پر تحقیقی نگاہ
اس روایت کے سلسلہ سند میں ہشام ابن عروہ راوی کی وجہ سے، اس روایت کی سند میں اشکال و اعتراض ہے، کیونکہ ابن قطان نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ
أنّه اختلط و تغیّر
وہ تبدیل ہو گیا ہے اور وہ صحیح و غلط مطالب کو آپس میں ملا کر نقل کرتا تھا۔
ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ
أنّه نسی بعض محفوظه أو وهم
وہ اپنی بعض علمی معلومات کو بھول چکا تھا یا ان میں شک کیا کرتا تھا۔
ابن خرّاش نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ
کان مالک لا یرضاه نقم علیه حدیثه لأهل العراق
مالک اس سے راضی نہ تھا اور جب وہ اسکی احادیث کو اہل عراق کے لیے نقل کرتا تھا تو اس پر اعتراض کیا جاتا تھا۔میزان الاعتدال، ج ۴، ص ٣٠١
یہ روایت صحیح بخاری کی ہی ایک اور روایت سے تضاد رکھتی ہے
نبی اکرم صلى الله علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے اور انھوں نے دیکھا کہ یہودیوں نے عاشورا کے دن روزہ رکھا ہوا ہے، حضرت نے فرمایا: یہ روزہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے جواب دیا
یہ خوشی کا دن ہے کہ اس دن خداوند نے بنی اسرائیل کو انکے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، لہذا موسی اور انکے پیروکار آج کے دن روزہ رکھتے ہیں، رسول خدا نے فرمایا: میں سب سے زیادہ موسی کی اتباع کرنے والا ہوں، اسی وجہ سے ان حضرت نے اس دن کو روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
یہ خوشی کا دن ہے کہ اس دن خداوند نے بنی اسرائیل کو انکے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، لہذا موسی اور انکے پیروکار آج کے دن روزہ رکھتے ہیں، رسول خدا نے فرمایا: میں سب سے زیادہ موسی کی اتباع کرنے والا ہوں، اسی وجہ سے ان حضرت نے اس دن کو روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
صحیح بخاری، ج ۲، ص ۲۵۱، حدیث ٢٠٠٤
قابل توجہ ہے کہ پہلی روایت کہتی تھی کہ رسول خدا اور قریش زمانہ جاہلیت میں اس دن میں روزہ رکھتے تھے اور ۱۳ سال مکہ میں بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور ماہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی لوگوں کو حق انتخاب تھا کہ وہ اس دن روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔
لیکن یہ دوسری روایت کہتی ہے کہ رسول خدا نے جب مدینہ ہجرت کی تو نہ یہ کہ وہ حضرت اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس دن روزہ رکھنے کا انکو علم تک نہ تھا اور جب یہودیوں کو دیکھا کہ انھوں نے اس دن روزہ رکھا ہوا ہے تو تعجب سے ان سے سوال کیا تو جواب سنا کہ ہم حضرت موسی کو نجات ملنے کی خوشی میں آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو میں بھی کفار مکہ کے ہاتھوں نجات ملنے کی خوشی میں اس دن روزہ رکھنے کا موسی سے زیادہ اہل ہوں، اسکے بعد نہ صرف یہ کہ رسول خدا نے خود اس دن روزہ رکھنا شروع کر دیا بلکہ وہ دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
اب یہ تیسری روایت ملاحظہ کریں جو اوپر والی ایک روایت کے موافق اور دوسری روایت سے تضاد رکھتی ہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ: صَامَ النَّبِیُّ صلى الله علیه وسلم عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِکَ. وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ یَصُومُهُ، إِلاَّ أَنْ یُوَافِقَ صَوْمَهُ.
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ ماہ رمضان واجب ہو گیا اور اسکے بعد اس دن کا روزہ رکھنا ترک ہو گیا اور عبد اللہ ابن عمر اس دن کو روزہ نہیں رکھتا تھا، مگر یہ کہ عاشورا کا دن اس دن ہوتا کہ جس دن عام طور پر وہ روزہ رکھتا تھا تو اس دن کو وہ روزہ رکھ لیتا تھا (مثلا روز جمعہ).
صحیح البخاری، ج ۲، ص ۲۲۶، ح ١٨٩٢
صاحب عقل اہل علم حضرات ان تینوں روایات کو پڑھ کر آسانی سے نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ سارا معاملہ ہی مشکوک ہے
رسول خدا (ص) کا اپنے ہی حکم کے خلاف عمل کرنا: (نعوذ باللہ)
ان روایات میں ایک دوسرا اشکال وہ ہے کہ جو ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ذکر کیا ہے
ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ابو سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ
انّ رسول الله صلى الله علیه وسلم أمر بصوم عاشوراء وکان لا یصومه
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، حالانکہ وہ خود اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔
مجمع الزوائد، هیثمی، ج ۳، ص ۱۸۶
آئیے اب ان ہستیوں سے عاشورا کے روزہ کے بارے میں پوچھتے ہیں جو محافظ شریعت ہیں اور کربلا میں جن کی قربانیوں کی بدولت اہلسنت حضرات اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے کے لائق ہیں
روزه عاشورا سنت بنی امیہ
بنى امیہ لعنت اللہ علیہم نہ فقط یہ کہ امام حسین (ع) اور انکے اہل بیت و اصحاب کی شہادت پر عزاداری کرنے کی مخالفت کرتے تھے بلکہ عملی طور پر بھی مقابلہ کرنے کی غرض سے انھوں نے روز عاشورا کو جشن و خوشی و عید کا دن قرار دیا ہوا تھا۔
بنی امیہ روز عاشورا کو مبارک دن جانتے تھے اور اس دن جشن کی محافل برپا کیا کرتے تھے اور اس دن پورے سال کا راشن گھروں میں ذخیرہ کیا کرتے تھے اور وہ یہ سارے کام ہر سال انجام دیا کرتے تھے۔
اسی وجہ سے آئمہ معصومین اور انہی کی راہ پر چلنے والے فقہاء نے بھی اس دن روزہ رکھنے سے منع کرتے ہوئے، اس دن کے روزے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا
ذاک یوم قتل فیه الحسین علیه السلام، فإن کنت شامتا فصم. ثم قال: إن آل أمیة علیهم لعنة الله ومن أعانهم على قتل الحسین من أهل الشام، نذروا نذرا إن قتل الحسین علیه السلام وسلم من خرج إلى الحسین علیه السلام وصارت الخلافة فی آل أبی سفیان، أن یتخذوا ذلک الیوم عیدا لهم، وأن یصوموا فیه شکرا، ویفرحون أولادهم، فصارت فی آل أبی سفیان سنّة إلى الیوم فی الناس، واقتدى بهم الناس جمیعا، فلذلک یصومونه ویدخلون على عیالاتهم وأهالیهم الفرح ذلک الیوم. ثم قال: إن الصوم لا یکون للمصیبة، ولا یکون إلا شکرا للسلامة، وإن الحسین علیه السلام أصیب، فإن کنت ممن أصبت به فلا تصم، وإن کنت شامتا ممن سرک سلامة بنی أمیة فصم شکرا لله تعالى.
یہ دن امام حسین کی شہادت کا دن ہے، اگر تم اس دن امام حسین پر ہونے والے مصائب سے راضی و خوش ہو تو اس دن روزہ رکھو۔
بنی امیہ لعنت اللہ علیہم اور اہل شام، کہ جہنوں نے امام حسین کو شہید کیا تھا، نے نذر مانی ہوئی تھی کہ اگر حسین قتل ہو جائے اور ہمارا شامی لشکر سلامتی کے ساتھ واپس آ جائے اور مقام خلافت آل ابو سفیان کو مل جائے تو عاشورا کے دن کو خوشی کے ساتھ اپنے لیے عید کا دن قرار دیں گے اور شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں گے
بحار الأنوار ء العلامة المجلسي ء ج ٩٣ ء الصفحة ٢٦٧
امام رضا علیہ السلام سے اسی بارے میں حدیث نقل ہوئی ہے کہ
یہ دن وہ دن ہے کہ بنی امیہ اس دن روزہ رکھتے تھے، حالانکہ اس دن اسلام اور مسلمین عزادار ہوئے تھے، پس آج کے دن روزہ نہ رکھو، جو بھی اس دن روزہ رکھے گا تو آل امیہ کی طرح اسکے نصیب میں بھی جہنم کی آگ لکھی جائے گی۔
اصول کافی، ج ۴، ص۱۴۷، شماره حدیث ۶
تهذیب الاحکام ، ج۴، ص۳۰۱، شماره حدیث ۹۱۲
الإستبصار، ج۲، ص۱۳۵، شماره حدیث ۴۴۳
بحارالأنوار، ج۶۱، ص۲۹۱
آئمہ معصومین (ع) اور روزہ عاشورا
محمد ابن مسلم اور زراره ابن أعین نے امام باقر علیہ السلام سے عاشورا کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو امام (ع) نے فرمایا
کان صومه قبل شهر رمضان، فلما نزل شهر رمضان ترک
اس دن کا روزہ رکھنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنے سے پہلے واجب تھا، لیکن جب ماہ رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہو گیا تو عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو ترک کر دیا گیا۔
من لا یحضره الفقیه، ج 2، ص 57
امام صادق (ع) کی نظر میں نو اور دس محرم کو روزہ رکھنا
عبد الملک نے امام صادق (ع) سے نو اور دس محرم کو روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان دو دنوں میں روزہ رکھا جا سکتا ہے ؟
امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: نو محرم کا دن وہ دن ہے کہ جب میدان کربلا میں امام حسین اور انکے اصحاب کا اہل شام نے محاصرہ کیا تھا۔ ابن مرجانہ عبید اللہ ابن زیاد ملعون اور ابن سعد ملعون اپنے لشکر کی زیادہ تعداد دیکھ کر بہت خوش تھے اور انھوں نے اس دن امام حسین اور انکے اصحاب کو کمزور شمار کیا تھا اور اس دن انکو یقین ہو گیا تھا کہ اب کوئی بھی حسین کی مدد کرنے کے لیے نہیں آئے گا، پھر امام صادق نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
میرے ماں باپ اس حسین پر قربان ہو جائیں کہ جسکو کمزور شمار کیا گیا اور وہ پردیس میں تھے !!
پھر فرمایا و اما روز عاشورا
یہ وہ دن ہے کہ جب امام غم و مصیبت میں مبتلا ہوئے اور زخمی حالت میں اپنے اصحاب کے درمیان زین سے زمین پر آ پڑے اور اس دن انکے اصحاب کے اجساد بھی برھنہ حالت میں انکے ارد گرد گرے ہوئے تھے، کیا اس حالت والے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے،
خانہ کعبہ کے خدا کی قسم بالکل نہیں رکھا جا سکتا، یہ دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ دن حزن و غم و مصیبت کا دن ہے کہ اس دن تمام اہل آسمان و زمین اور تمام مؤمنین غم و مصیبت سے دوچار ہوئے تھے۔
روز عاشورا، ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کے لیے خوشی و شادی کا دن ہو سکتا ہے، خداوند کا غضب و غصہ ہو ان پر اور انکی اولاد پر، عاشورا وہی دن ہے کہ جب سرزمین شام کے علاوہ تمام زمینوں نے گریہ کیا۔
جو بھی اس دن روزہ رکھے یا اس دن کو با برکت شمار کرے تو خداوند اسکو اس حال میں آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا کہ انکے دل مسخ ہو چکے ہوں گے اور ان پر خداوند کا غضب و عذاب ہوا ہو گا۔
جو بھی اس دن اپنے گھر میں خوشی کی حالت میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو خداوند اسکے دل کو نفاق میں مبتلا کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں خدا سے ملاقات کرے گا اور برکت کو اس سے اور اسکی اولاد سے دور کر دے گا اور شیطان کو ان سب کے ساتھ شریک قرار دے دے گا۔
بحار الأنوار (ط – بیروت) ج45 ص95
اہل سنت کے ایک با بصیرت عالم مناوی نے روز عاشورا کے بارے میں کہا ہے کہ
ما یروى فی فضل صوم یوم عاشوراء والصلاه فیه والانفاق والخضاب والادهان والاکتحال، بدعه ابتدعها قتله الحسین (رضی اللَّه عنه) وعلامه لبغض اهل البیت، وجب ترکه
جو کچھ عاشورا کے دن کے روزے کی فضیلت، نماز، انفاق، خضاب کرنے، بالوں میں تیل لگانے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے وغیرہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، وہ سب بدعت ہے کہ جسکو امام حسین کے قاتلوں نے ذکر کیا ہے اور یہی باتیں انکی اہل بیت کے ساتھ دشمنی کی بھی علامت ہے کہ ان سب بدعتوں کو ترک کرنا واجب ہے۔
فیض القدیر ج ۶ ص ۲۳۶
خلاصہ
فریقین شیعہ اور اہل سنت کی معتبر کتب میں موجود عاشورا کے روزے کے بارے میں روایات کی روشنی میں ثابت ہوا کہ اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے بارے میں رسول خدا سے کوئی بھی صحیح اور معتبر روایت نقل نہیں ہوئی۔
ان روایات کی سند کا سلسلہ اور ان روایات میں مذکور مطالب بتاتے ہیں کہ ان روایات کو بنی امیہ نے جعلی طور پر گھڑا ہے، کیونکہ یہی واقعہ عاشورا کو وجود میں لانے والے تھے ، لہذا اس نے غلط روایات کے ذریعے سے ناکام کوشیشں کیں ہیں کہ شاید کسی طریقے سے امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کو کم رنگ کیا جا سکے اور انسانیت کے اذہان کو اس درد ناک دن میں دوسری چیزوں کی طرف توجہ دلائی جائے تا کہ کوئی واقعہ کربلا کا ذکر نہ کرے اور نتیجے کے طور پر بنی امیہ اور خاص طور پر معاویہ اور یزید لعین کے دامنوں پر بھی شہادت امام حسین (ع) کا کوئی دھبہ نہ لگ سکے
لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود کو اہل سنت کہنے والوں نے کتنے آرام سے اپنی کتب میں لکھ دیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا یہودیوں سے سیکھا تھا۔
پس معلوم ہو گیا کہ عاشورا کا روزہ یہودی رکھتے تھے نہ مسلمان
(بشکریہ موسسہ ولی عصر)