لشکرِ یزید میں موجود اہلسنت کے صحابہ
(اہل سنت کی معتبر کتب کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ)
ویسے تو عبداللہ بن عمر سمیت کئی صحابہ نے یزید پلید کی بعیت کی یعنی یزید کی پلیدی فسق فجور پر بعیت کی
لیکن اس تحریر میں ان صحابہ کا بتایا جائے گا جو براہ راست لشکر یزید میں یعنی قاتلین اہلبیت کے لشکر کا حصہ تھے
اختصار کے ساتھ ہم یہاں اس مضمون میں سات چیدہ چیدہ اصحاب کا ذکر کریں گے جن میں اکثر یزید کے کمانڈر بھی تھے

۔ عبداللہ بن حصن الأزدی
صحابی ہونے کا ثبوت
قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي : 852 : عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة ۔ طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ھے ۔
الإصابة في تمييز الصحابة جلد 4 صفہہ 54 رقم 4646 – بيروت

وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے – اہلسنت کتاب سے سکین پیجز
واقعۂ کربلا میں کردار
وناداه عبد الله بن حصن الأزدي : يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً
عبد اللہ ازدی نے کہا ۔ اے حسین (ع) کیا تم پانی کیطرف نہیں دیکھ رھے ۔۔لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا – حتی تم پیاسے ھی مرو گے ۔
أنساب الأشراف جلد1 صفحہ 389

۔ كثير بن شھاب الحارثي
صحابی ہونے کا ثبوت
امام ابو نعیم اصفہانی
"کثیر بن شُہاب نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تھا۔"
تاریخ اصفہان، ج 2، ص 136

قال ابن حجر : يقال ان له صحبة … قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا ۔
میں (ابن حجر) کہتا ہوں کہ اس کے صحابی ہونے کو تقویت دینے والی بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں صرف صحابہ ہی کو (جنگ یا حکومت کا) امیر مقرر کیا جاتا تھا، اور عمر بن خطاب کا اس کے نام خط لکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ (واقعی) امیر تھا۔
الإصابة في تمييز الصحابة جلد 5 صفہہ 427 – بيروت

کردار
یزید کی حمایت میں تقریر کی اور لشکر یزید کی آمد کی اطلاع دی – دیکھو امیرالمومنین یزید کی فوجیں چل چکی ہیں
تاریخ طبری، ج 4، ص 164

حجار بن أبجر العجلی
ثبوت صحابیت
حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك
اس نے نبی (ع) کے زمانے کو درک کیا ھے ۔
الإصابة في تمييز الصحابة صفہہ 143 رقم 1960 – بيروت

ابوحاتم رازی نے اسے اپنی کتاب "الثقات” میں "ثقہ” شمار کیا ہے جہاں وہ اہل سنت کے ثقہ راویوں کی فہرست میں درج ہے
الثقات – صفہ ١٩٢

واقعۂ کربلا میں کردار
قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری
وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف .
وہ کربلاء میں ھزار سپاھیوں کے ھمراہ شریک ھوا
أنساب الأشراف ج 3 ص 387

حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ میں آمد کے بعد، جب حالات بدل گئے، تو حِجار ابن زیاد کے ساتھ جا ملا۔
اسے ان بارہ افراد میں شامل بتایا گیا ہے جنہوں نے حضرت مسلم کے خلاف گواہی دی۔
اختصار کے ساتھ مزید حوالاجات پیش خدمت ہیں



عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی
ثبوت صحابیت
قال ابن عبد البر المتوفي 463 : عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن …
اسکا نام عزیز تھا پھر رسول خدا (ص) نے اسکا نام عبد الرحمن رکھا
الاستيعاب جلد 2 صفہہ 834 رقم – بيروت

کردار بر کربلا
قال ابن الأثير المتوفي : 630 هـ ۔ وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين :
وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا – اور کربلاء میں حاضر ھوا
الكامل في التاريخ جلد 3 صفحہ 417 – بيروت

عزرة بن قيس الأحمسی
صحابی ہونے کی گواہی
عربی متن : قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي : 852 : عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي … وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔
اردو ترجمہ : اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ھے ۔ ( یعنی صحابی تھا)
الإصابة في تمييز الصحابة صفحہ 107 رقم 6420 – بيروت

جنگی کردار
وجعل عمر بن سعد … وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی ۔
گھوڑے سواروں کا سالار
واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر … وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔
وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا – شہداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا
أنساب الأشراف 395


عبـد الرحمن بن أَبْـزى
صحابی ہونے کا ثبوت
له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه ۔
وہ صحابی ھے ۔ ابوحاتم نے کہا ھے ۔ کہ اسنے نبی (ص) کے پیچھے نماز پڑھی ھے ۔
الإصابة – ابن حجر – صفہہ 139

کربلا میں سرگرمی
اہلسنت کے انتہائی مشہور مورخ ابو حنیفہ احمد بن داؤد الدینوری ( 212ھ – 282ھ ) اپنی شہرہ آفاق کتاب الأخبار الطوال ، جلد ١ ، صفہ ٣٠٥ پر لکتھے ہیں کہ وہ امام حسین (ع) سے جنگ کرنے کربلاء حاضر ھوا تھا

عمرو بن حريث
صحابیت کا ثبوت
انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا، اور یہ سعید بن حریث کے بھائی تھے۔
أسد الغابة – ابن الأثير – صفہ ٩٢٨ – ٩٢٩

عمرو بن حريث صحیح مسلم کا راوی


کردار
اہلسنت کی کتب بھری پڑی ہیں کہ عمرو بن حُریث نے عبید اللہ بن زیاد کی خدمت میں کام شروع کیا اور کوفہ و بصرہ کے امور میں معاونت کی۔ – وبقي على ولائه لبني أُميّة حتّى كان خليفة ابن زياد على الكوفة – بنی امیّہ کیلیئے والی رہا یہاں تک کہ ابن زیاد کوفہ کا خلیفہ تھا
نیچے عمرو بن حُریث کے حالات اور خصوصاً اس کے یزید و عبید اللہ بن زیاد کی فوج میں شمولیت پر اہلِ سنت کی معتبر کتب سے مفصل حوالہ جات دئیے گئے ہیں۔








نتیجہ
اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ صحابہ کی کثیر تعداد یزید کی فوج کا حصہ بنے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نبی کریم ﷺ سے ملاقات یا صحبت رکھتے تھے لیکن نواسہ رسول ص کو شہید کرنے میں پیش پیش رہے . اس حقیقت کا انکار تاریخی بددیانتی ہے۔
لہٰذا صحابہ کے عمل کو جانچنے کے لیے قرآن و سنت کے میزان پر پرکھنا ضروری ہے۔
شیعہ مؤقف — عدل پر مبنی
شیعہ صحابہ کی عزت کرتے ہیں مگر ان صحابہ کو بری الذمہ نہیں سمجھتے جنہوں نے اہل بیتؑ کے خلاف تلوار اٹھائی۔
جو بھی اہل بیتؑ کے دشمنوں کی صف میں کھڑا ہو، وہ "صحابی” کے لقب سے مقدس نہیں ہو سکتا۔
شیعہ خیر البریہ حق ہیں شیعہ خیر البریہ حق ہیں