اپنی کتاب حضرت عمر کے سرکاری خطوط میں بیان کرتے ہیں کہ
ان ( عمر) کا اجتہاد آزاد اور با جرات تھا وہ اگر کسی بات کو درست سمجھتے یا خلافت کے مفاد میں تو اسے بے دھڑک اختیار کرلیتے تھے
چاہے ایسا کرنے میں سنت رسول (ص) اور عمل صدیق کی مخالفت ہی کیوں نہ کرنی پڑتی ، اگر حالات کا تقاضا ہوتا تو وہ قرآن کے ضابطوں کو بھی نظر انداز کر دیتے تھے