ویسے تو معاویہ کے بارے میں اہلسنت منابع میں یہ موجود ہے کہ معاویہ کی فضیلت میں ایک بھی روایت درست نہیں. اورعلی ابن جعد ( استاد امام بخاری ) نے تو یہاں تک لکھا کہ : مات واللہ معاویہ علی غیر الاسلام
اللہ کی قسم معاویہ اسلام سے خارج ہوکر مرا
مسائل احمد ابن حنبل , جلد دوم صفحہ 154، روایت 1866
لیکن پھر بھی اہلسنت میں موجود ایک ناصبی گروہ ، جو معاویہ بن ابو سفیان کو زبردستی کاتب وحی بنانے پر بضد ہے
یہ ناصبی گروہ اپنے دعوى کو ثابت کرنے کے لئے صرف ایک دلیل صحیح مسلم سے لاتا ہے
آئیے اس کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں
ابن عباس نے کہا ہے کہ: مسلمان ابو سفیان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے اور اسکے ساتھ بیٹھنے کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس نے رسول خدا (ص) سے کہا کہ میری تین درخواستیں ہیں اور آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان کو مجھے عنایت کر دیں۔ رسول خدا نے بھی اس بات کو قبول کر لیا
1- عرب کی نیک ترین اور خوبصورت ترین بیٹی، ام حبیبہ میرے پاس ہے، میں اسکی شادی آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔
2- معاویہ کاتب وحی بن جائے۔
3- مجھے لشکر اسلام کا سپہ سالار بنائیں تا کہ کفار سے ویسے ہی جنگ کروں، جس طرح کہ میں مسلمانوں سے جنگ کیا کرتا تھا۔
رسول خدا نے سب کو قبول کر لیا۔
ابو زمیل نے کہا ہے کہ: اگر ابو سفیان ان تین درخواستوں کو رسول خدا سے طلب نہ کرتا تو، وہ کبھی بھی پوری نہ ہوتیں، کیونکہ رسول خدا (ص) کسی کی بھی درخواست کو درّ نہیں کرتے تھے۔
صحيح مسلم، ص 1168 ، ح2501، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ، 40 بَاب من فَضَائِلِ أبی سُفْيَانَ بن حَرْبٍ
آئیے اب اہلسنت امام نووی کی شرح النووی علی صحيح مسلم پڑھتے ہیں جس میں وہ اس روایت کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ
و اعلم أن هذا الحديث من الاحاديث المشهورة بالاشكال و وجه الاشكال أن أبا سفيان إنّما أسلم يوم فتح مكة سنة ثمان من الهجرة و هذا مشهور لا خلاف فيه و كان النبي صلي الله عليه و سلم قد تزّوج أم حبيبة قبل ذلك بزمان طويل.
قال أبو عبيدة و خليفة بن خياط و إبن البرقي و الجمهور: تزّوجها سنة ست و قيل سنة سبع
قال القاضي: و الذي في مسلم هنا أنّه زوّجها أبو سفيان غريب جدّاً و خبرها مع أبي سفيان حين ورد المدينة في حال كفره مشهور و لم يزد القاضي علي هذا
و قال ابن حزم هذا الحديث و هم من بعض الرواة ؛ لأنّه لا خلاف بين الناس أنّ النبي صلي الله عليه و سلم تزّوج أم حبيبة قبل الفتح بدهر و هي بأرض الحبشة و أبوها كافر و في رواية عن ابن حزم أيضاً أنّه قال: موضوع. قال: و الآفة فيه من عِكْرِمَة بن عمار الراوي عن أبي زميل
یہ احادیث میں سے وہ حدیث ہے کہ جس میں جو اشکال ہے، وہ معروف اور مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ ابو سفیان بغیر کسی شک کے سال ہشتم ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا تھا،اور رسول خدا نے فتح مکہ سے بہت عرصہ پہلے ام حبیبہ سے شادی کر لی تھی، ابو عبیدہ اور دوسروں بلکہ سب کا اس قول پر اتفاق ہے کہ یہ شادی 6 یا 7 ہجری کو ہو گئی تھی۔ لہذا مسلم کی یہ روایت قابل تعجب ہے، کیونکہ ابو سفیان کفر کی حالت میں، شہر مدینہ میں داخل ہوا تھا اور یہ بات معروف اور مشہور ہے۔
ابن حزم نے کہا ہے کہ: بعض راویوں کا اس روایت کو نقل کرنا، خطا اور غلط ہے، کیونکہ اس بات میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ رسول خدا نے فتح مکہ سے پہلے ام حبیبہ سے اس حالت میں کہ اسکا باپ کافر تھا، شادی کر لی تھی۔
ابن حزم سے ایک دوسری روایت نقل ہوئی ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: یہ حدیث جھوٹی اور جعلی ہے، اسلیے کہ عکرمہ ابن عمار نے اس روایت کو ابو زمیل سے نقل کیا ہے….
شرح النووی علی صحيح مسلم ، ص 90
اہلسنت کے امام ذہبی لکھتے ہیں کہ
و فی صحيح مسلم قد ساق له أصلا منكرا عن سماك الحنفی عن ابن عباس فی الثلاثة التی طلبها أبو سفيان و ثلاثة أحاديث أخر بالإسناد
صحیح مسلم میں یہ حدیث اور دوسری تین حدیثیں، منکرات میں سے ہیں کہ جو اس کتاب میں نقل ہوئی ہیں۔
ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، ص 116
ابن ملقن شافعی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
هذا من الأحاديث المشهورة بالإشكال المعروفة بالإعضال، و وجه الإشكال : أنّ أبا سفيان إنّما أسلم يوم الفتح، و الفتح سنة ثمان، و النبی كان قد تزّوجها قبل ذلك بزمن طويل۔ قَالَ خليفة بن خياط : و المشهور علی أنّه تزّوجها سنة ست، و دخل بها سنة سبع، و قيل: تزّوجها سنة سبع، و قيل: سنة خمس۔
اس حدیث میں جو اشکال ہے، وہ بہت معروف اور برا ہے، کیونکہ ابو سفیان سال ہشتم ہجری فتح مکہ والے دن مسلمان ہوا تھا اور رسول خدا نے اس بہت عرصہ پہلے سال ششم ہجری میں، ام حبیبہ سے شادی کر لی تھی، لیکن شادی کے بعد اسکو سال ہفتم ہجری میں اپنے گھر لے کر آئے تھے، اگرچے بعض نے شادی والے سال کو سال 7 یا 5 ہجری بھی نقل کیا ہے۔
البدر المنير فی تخريج الأحاديث و الأثار الواقعة فی الشرح الكبير، ج 6، ص 731
ابن تیمیہ کا شاگرد ابن قيم الجوزي اس روایت کے بارے میں درج کرتا ہے کہ
یہ حدیث لوگوں کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے، کیونکہ ام حبیبہ نے ابو سفیان کے مسلمان ہونے سے پہلے رسول خدا سے شادی کر لی تھی اور یہ شادی حبشہ میں نجاشی کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ پس کسطرح فتح مکہ کے بعد ابو سفیان کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ: یہ حدیث بنیاد اور جڑ سے ہی جھوٹی ہے، ابن حزم نے کہا ہے کہ: عکرمہ ابن عمار نے اس حدیث کو گھڑا ہے۔
جلاء الأفهام فی فضل الصلاة علی محمد خير الأنام، ج 1، ص 243 ـ 249
معاویہ بن ابو سفیان معمولی خطوط لکھنے والا
یہ بات بزرگان اہلسنت کے اقوال و روایات سے ثابت ہے کہ معاویہ بن ابو سفیان ، رسول خدا کے فقط روز مرہ کے معمولی اور عادی خط لکھا کرتا تھا
امام ذہبی نے لکھا کہ
و نقل المفضل الغلابي عن أبي الحسن الكوفي قال كان زيد بن ثابت كاتب الوحي و كان معاوية كاتبا فيما بين النبي صلي الله عليه و سلم و بين العرب
زيد بن ثابت كاتب وحی تھا اور معاويہ رسول خدا کے خطوط کو عربوں کے لیے لکھا کرتا تھا۔
سير أعلام النبلاء، ج 3 ص ١٢٣
ابن حجر عسقلانی نے بھی الإصابہ میں لکھا ہے کہ
و قال المدائني كان زيد بن ثابت يكتب الوحي و كان معاوية يكتب للنبي صلي الله عليه و سلم فيما بينه و بين العرب۔
مدائنی نے کہا ہے کہ: زید بن ثابت وحی کو لکھتا تھا اور معاویہ عربوں کے لیے رسول خدا کے خطوط کو لکھتا تھا۔
الإصابة فی تمييز الصحابة، ج 6 ، ص ١٢١
کاتب وحی عبد اللہ بن ابی سرح کا مرتد ہونا
فرض کریں کہ معاویہ کاتب وحی تھا، پھر بھی یہ اسکے لیے یہ کوئی کمال اور فضیلت شمار نہیں ہوتا اور اسکے لیے گناہ اور خطا سے کسی قسم کیعصمت کا باعث نہیں بنتا، کیونکہ عبد اللہ بن ابی سرح کہ شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ وہ کاتب وحی تھا، وہی رسول خدا کے زمانے میں مرتد ہو گیا تھا اور رسول خدا نے حکم دیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے، حتی اگر وہ خانہ کعبہ کے پردے سے ہی کیوں نہ لگا ہوا ہو
رسول ص نے فتح مکہ والے دن حکم دیا کہ کوئی بھی اہل مکہ کو آزار و اذیت نہ کرے اور سب امن کی حالت میں ہیں لیکن اس حکم میں سے فقط چار مردوں اور دو عورتوں کو استثناء کیا، اور فرمایا کہ: ان سب کو قتل کر دو، اگرچے وہ خانہ کعبہ کے پردے سے آویزان ہی کیوں نہ ہوئے ہوں، وہ یہ افراد ہیں: عكرمہ ابن ابو جہل، عبد الله ابن خطل، مقيس بن صبابہ اور عبد الله بن سعد بن ابی سرح ..
المصنف فی الأحاديث و الآثار ، ج 7 ، ص ٤٠٤ تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير و الأعلام ، ج 2 ، ص 552
ایک کاتب وحی جس کے بدن کو زمین نے قبول نہیں کیا
انس بن مالک کہتا ہے کہ: بنی نجار کا ایک بندہ کہ جس نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کو پڑھا تھا اور رسول خدا کے لیے لکھا بھی کرتا تھا، وہ فرار کر کے اہل کتاب سے جا کر مل گیا، اہل کتاب کا ایسے بندے کو پناہ دینا بہت مفید تھا، لہذا انھوں نے اس کا بہت استقبال کیا اور اپنے پاس اسکو بہت اچھا مقام اور منصب دیا۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ وہ مر گیا، اس کے لیے قبر کھودی گئی اور اسکو اس میں دفن کر دیا گیا، لیکن اسکو قبر اپنے اندر سے نکال دیتی تھی اور اسکے بدن کو قبول نہیں کرتی تھی، انھوں نے تین مرتبہ اس کے بدن کو قبر میں ڈالا لیکن قبر نے اس کو تینوں مرتبہ باہر نکال دیا، آخر کار وہ اس کے بدن کو اسی طرح زمین پر چھوڑ کر چلے گئے۔
صحيح مسلم ، ح2781، كِتَاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَ أَحْكَامِهِمْ
کاتب وحی ہونا جب عبد اللہ ابن ابی سرح کے لیے کوئی مفید نہ ہو اور اسکو جہنم کی آگ سے نجات نہ دلا سکتا ہو تو، معاویہ کے لیے کیسے عصمت لا سکتا ہے جس نے ساری زندگی اہلبیت اطہار پر سب و شتم کروایا اور اہلسنت کے چوتھے خلیفہ حضرت علی ع سے جنگیں کرتا رہا
پس یہ بات ثابت ہے کہ معاویہ کاتبِ وحی نہیں بلکہ قاتلِ وحی تھا قاتلِ وحی سے مراد وحی کا منکر تھا
صحيح مسلم، ص 1168 ، ح2501
شرح النووی علی صحيح مسلم ، ص 90
ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، ص 116
البدر المنير فی تخريج الأحاديث و الأثار الواقعة فی الشرح الكبير، ج 6، ص 731
جلاء الأفهام فی فضل الصلاة علی محمد خير الأنام، ج 1، ص 243 ـ 249
سير أعلام النبلاء، ج 3 ص ١٢٣
الإصابة فی تمييز الصحابة، ج 6 ، ص ١٢١
المصنف فی الأحاديث و الآثار ، ج 7 ، ص ٤٠٤
صحيح مسلم ، ح2781، كِتَاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَ أَحْكَامِهِمْ