قاتلان امام حسین ع کا مذہب
امام حسین ع کے زمانے میں کوفہ کے سیاسی شیعہ
معاویہ کی حکومت 21 سال کے طویل عرصہ پر محیط تھی۔ معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد جو اہم کام کئے، وہ یہ تھے کہ
زیاد بن سمعیہ کو اپنا بھائی قرار دیا (اس بنیاد پر کہ معاویہ کا باپ ابو سفیان نے زیاد کی ماں سمعیہ سے زنا کیا تھا اور اسی زنا کی بنیاد پر زیاد پیدا ہوا تھا). مولا علی (ع) کے زمانے میں زیاد کوفہ میں تھا اور اس لیے مولا علی (ع) کے تمام شیعوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔. معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو بھائی بنا کر اپنا طرفدار بنا لیا، اور پھر کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا اور پھر شاہ عبدالعزیز دھلوی کی الفاط میں اب زیاد نطفہ ناتحقیق کی شرارت دیکھئے کہ معاویہ کی رفاقت میں پہلا فعل جو اس سے سرزد هوا وہ جناب امیر کی اولاد کی عداوت تھی . تحفہ اثنا عشریہ، ص
زیاد بن سمعیہ نے کوفہ کے اُن تمام شیعوں کو (خاص طور پر مذھبی امامی شیعوں کو)، جو علی ابن ابی طالب کے سخت حامی تھے، چن چن کر قتل کیا۔
البدایہ والنہایہ ، ج 3ص 51 ، حافظ ابن کثیر ، تاریخ کامل، ج 3 ص 245 ؛ ابن اثیر ،] تاریخ طبری، ج 6 ص 155 ، الاستیعاب ، ج 1 ص ١٣٨
شدت یہ تھی کہ ایک نسل بعد جب زیاد کا بیٹا ابن زیاد گورنر بنا تو اس نے ھانی بن عروہ (جوکہ شیعہ تھے)سے کہا تھا:
ہانی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرا باپ جب اس شھر میں آیا تھا تو اس نے تمھارے باپ اور حجر کے سوا ان شیعوں میں سے کسی کو بھی قتل کئیے بغیر نہیں چھوڑا۔پھر حجر کا جو انجام ہوا وہ بھی تمہیں معلوم ہے۔
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 158 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی
اسی طرح حضرت ابن عباس نے امام حسین ع کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ کوفہ میں شیعوں میں ھانی اور دو چار اور شیعوں کے علاوہ کوئی شیعہ نہ رہ گیا تھا، چہ جائیکہ کوفہ کی اکثریت اہل بیت کے امامی شیعوں کی ہوتی۔جب ابن عباس امام حسین (ع) کے پاس دوسری مرتبہ آئے تو انہوں نے کہا: برادر میں چاہتا ہوں کہ صبر کروں لیکن صبر نہیں آتا۔ اس راہ میں مجھے آپ کے ہلاک ہونے کا خوف ہے۔اہل عراق دغا باز ہیں۔ چنانچہ ہر گز ان کے پاس نہ جائیے۔ اس شھر میں قیام کریں کیونکہ آپ اہل حجاز کے رئیس ہیں۔ اگر عراق والے آپ کو بلاتے ہیں تو ان کو لکھیں کہ وہ پہلے اپنے دشمنان سے پیچھا چھڑائیں اور صرف اس کے بعد ان کے پاس جائیں۔ اگر آپ کو یہاں سے جانا ہی منظور ہے تو یمن کی طرف چلے جائیں کہ وہاں قلعے ہیں اور پہاڑ کی گھاٹیاں ہیں، ایک طویل و عریض ملک ہے ، وہاں آپ کے والد کے شیعہ موجود ہیں اور وہاں آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ کوفہ میں پھر باقی کون لوگ رہ گئے تھے؟
تو جواب یہ ہے کہ کوفہ میں صرف وہ لوگ بچے جو کہ نہ صرف خلافتِ شیخین کے قائل تھے، بلکہ خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کی خلافت کے بھی قائل تھے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولا علی (ع) کے زمانے میں بھی کوفہ کی اکثریت اُن سیاسی شیعوں پر مشتمل تھی جو کہ خلافتِ شیخین کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمان ابن عفان کو بھی جائز مانتے تھے کیونکہ وہ اُسی اصولوں پر ہوئی تھی جس پر خلافت شیخین منعقد ہوئی تھی۔ اور اسی وجہ سے جب عقیدتی امامی شیعہ جماعت بشمول مالک بن اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خلاف بولا تو اہل کوفہ کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے(حوالہ : تاریخ طبری ، ج 5 ، ب 19 ، ص 189
مطبوعہ مصر