اھم ترین

افسانہ – حضرت علی ع کا ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کی خواہش

افسانہ – حضرت علی ع کا ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کی خواہش

تحریر : سید حسن رضوی

اعتراض

اہل‌سنت نے اپنی کتبِ احادیث میں امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے بارے میں حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق امام علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ علیہا السلام کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا ارادہ کیا اور شادی کی پیشکش کی ۔

جواب

یہ ایک روایت معروف ناصبی مسور بن مخرمہ کے طریق سے اہل سنت کتب میں ذکر کی گئی ہے۔ مکتبِ تشیع اس قصہ کو قبول نہیں کرتے اور اس کو امام علیؑ کی شخصیت سے متعلق ایک افسانہ، جھوٹ اور بہتان قرار دیتے ہیں۔
اہل سنت اس روایت کی بناء پر یہ شبہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ابو جہل کی بیٹی سے شادی کی پیشکش جھوٹ و بہتان ہے تو پھر روایت کا آخری حصہ فاطمة بضعة منی بھی جھوٹ اور بہتان شمار کیا جائے گا۔

تفصیلی جواب

دو شبہات کا بیان

پہلا شبہ

اہل سنت نے مسور بن مخرمہ ناصبی کے طریق سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کے مطابق امیر المومنین علیہ السلام نے جناب فاطمہ علیہا السلام کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس مقام پر اہل سنت شبہ اس طرح سے ذکر کرتے ہیں کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ مسور بن مخرمہ ایک ناصبی ہے اور ناصبی کی روایت قابل قبول نہیں ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسی روایت کا جزء فاطمة بضعة منی کہ فاطمہ (علیہا السلام) میرے وجود کا ٹکڑا ہے بھی نا قابل قبول اور غیر معتبر قرار پائے گا۔
مسور بن مخرمہ سے جو روایت وارد ہوئی ہے اس کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ امام علی ؑ نے ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا ارادہ کیا جس کی خبر رسول اللہ ؐ کو پہنچی تو آپؐ ناراض ہوئے اور یہ کلمات ارشاد فرمائے: فاطمة بضعة منی؛ فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے۔ پس اگر مسورِ ناصبی کی روایت کا ابتدائی حصہ قبول نہیں ہے تو پھر بقیہ حصہ بھی قبول نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہ شبہ ہے جو اہل سنت کی جانب سے ان کتب میں ذکر کیا جاتا ہے۔

دوسرا شبہ

نیز اہل سنت کتب میں خواستگاری سے متعلق بیان جس روایت میں بھی وارد ہوا ہے اس کی سند مسور بن مخرمہ ناصبی پر ختم ہوتی ہے۔ مسور کے علاوہ کسی نے اس کو نقل نہیں کیا۔ البتہ حاکم نیشاپوری نے مستدرک علی الصحیحین میں اپنی سند سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ان الله یغضب لغضبک؛ (اے فاطمہ) اللہ آپ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے۔ لیکن اس سندِ حدیث میں حسین بن زید ہے جو اہل سنت علماء رجال کے نزدیک منکر الحدیث ہے۔ چنانچہ حدیث کا یہ جملہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔

 پہلے شبہ کا جواب

جہاں اس شبہ کا تعلق ہے کہ امام علیؑ کا ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا تذکرہ مسور بن مخرمہ ناصبی کے طریق سے آیا ہے اور اسی کے طریق سے آنے والی احادیث میں یہ جزء فاطمة بضعة منی نقل وارد ہوا ہے چنانچہ اگر خواستگاری والی بات جھوٹ اور افتراء ہے تو یقینا دوسرا حدیث کا حصہ بھی ضعیف اور غیر معتبر قرار دیا جائے گا، تو اس کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے:

 اس افسانہ کو ردّ کرنے کے دلائل

اولاً: امام علی ؑ پر ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا جو جھوٹ باندھا گیا ہے اور جو افسانہ تراشا گیا ہے اس کا ردّ فقط یہ نہیں ہے کہ مسور بن مخرمہ ایک ناصبی اور دشمنِ امام علی علیہ السلام تھا بلکہ اس کے علاوہ بھی متعدد دلائل ہیں جن سے اس قصہ کا افسانہ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

 روایت کا دیگر صحابہ کرام سے نقل ہونا

ثانیاً: ایسا نہیں ہے کہ جناب فاطمہ ؑ سے متعلق روایت کا یہ حصہ فاطمة بضعة منی کہ فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے کسی اور سند سے نہیں آیا ! بلکہ رسول اللہ ؐ کے متعدد اصحاب نے اس حصہ کو نقل کیا ہے ۔ ذیل میں ان صحابہ کا تذکرہ پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے «فاطمة بضعة منی» کو رسول اللہ ؐ سے نقل کیا ہے۔

 امام علی علیہ السلام

مسند میں احمد بزار نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْکُوفِیُّ، قَالَ: نا مَالِکُ بْنُ اِسْمَاعِیلَ، قَالَ: نا قَیْسٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، ُاَنَّهُ کَانَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اَیُّ شَیْءٍ خَیْرٌ لِلْمَرْاَةِ؟ فَسَکَتُوا، فَلَمَّا رَجَعْتُ قُلْتُ لِفَاطِمَةَ: اَیُّ شَیْءٍ خَیْرٌ لِلنِّسَاءِ؟ قَالَتْ: اَلا یَرَاهُنَّ الرِّجَالُ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فَقَالَ: اِنَّمَا فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّی رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا؛ محمد بن حسین کوفی نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے مالک بن اسماعیل نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے قیس نے ، وہ عبد اللہ بن عمران سے، علی بن زید سے، وہ سعید بن مسیب سے ، وہ علی بن ابی‌طالب (علیہ ‌السّلام) سے کہ امام علی (علیہ السلام )رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی خدمت میں تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: کونسی چیز خاتون کے لیے سب سے بہترین ہے ؟ (امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں) میں جب واپس گھر لوٹا تو میں نے فاطمہ (علیہا السلا) سے کہا: خواتین کے لیے سب سے بہترین کونسی چیز ہے؟ آپ (علیہا السلام) نے فرمایا: مرد حضرات خواتین نہ دیکھنے پائیں، پس میں نے اس کا ذکر نبی (صلی الہ علیہ وآلہ) کے سامنے کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے اللہ اس سے راضی ہو۔

[۲]

 ابو ہریرہ دوسی

حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، اَخْبَرَنَا اَبُو یَحْیَی التَّیْمِیُّ، حَدَّثَنَا اَبُو اِسْحَاقَ الْمَخْزُومِیُّ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ اَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌): اِنَّمَا فَاطِمَةُ حَذِیَّةٌ مِنِّی یَقْبِضُنِی مَا قَبَضَهَا؛ عبید اللہ بن عمر نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں ابو یحیی تمی نے خبر دی، ہمیں ابو اسحاق مخرومی نے بیان کیا ، انہوں نے عبقری سے، وہ ابو ہریرہ سے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔

[۳]

 انس بن مالک

ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ الْوَاسِطِیُّ، ثنا یَعْقُوبُ بْنُ اِبْرَاهِیمَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ، ثنا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، ثنا هُشَیْمٌ، ثنا یُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ اَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم): ” مَا خَیْرٌ لِلنِّسَاءِ؟ فَلَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ، فَسَارَّ عَلِیٌّ اِلَی فَاطِمَةَ فَاَخْبَرَهَا بِذَلِکَ، فَقَالَتْ: فَهَلا قُلْتَ لَهُ: خَیْرٌ لَهُنَّ اَنْ لا یَرَیْنَ الرِّجَالَ وَلا یَرَوْنَهُنَّ، فَرَجَعَ فَاَخْبَرَهُ بِذَلِکَ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ عَلَّمَکَ هَذَا؟ ” قَالَ: فَاطِمَةُ، قَالَ: اِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّی؛ ہم سے عبد اللہ بن محمد بن عثمان واسطی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے عباد بن عوام نے، ان سے عمر بن عون نے بیان کیا، ان سے ہشیم نے ، ان سے یونس نے ، ان سے حسن نے ، ان انس نے کہ انس کہتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: خواتین کے لیے بہترین چیز کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم کیا کہیں، امام علی (علیہ السلام) فاطمہ (علیہا السلام) کی طرف گئے اور اس مسئلہ سے انہیں باخبر کیا، آپ (علیہا السلام) نے فرمایا: (اے علی ) آپ نے انہیں کیوں نہیں کہا کہ خواتین کے لیے سب سے بہترین یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد حضرات انہیں نہ دیکھیں ، امام (علیہ السلام) لوٹ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو اس کے بارے میں بتایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: آپ کو یہ کس نے بتایا ہے؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: فاطمہ (علیہا السلام) نے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: بے شک وہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے۔

[۴]

 عمرو بن حزم انصاری

وَاِنَّ اَبَا بَکْرِ بْنَ مُحَمَّدٍ یَعْنِی عَمْرَو بْنَ حَزْمٍ حَدَّثَنِی، عَنْ اَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: ” فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّی، وَیُسْخِطُنِی مَا اَسْخَطَهَا، وَیُرْضِینِی مَا اَرْضَاهَا؛ ابو بکر بن محمد یعنی عمرو بن حزم نے مجھے بتایا، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے اور جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا۔

[۵]

 محمد بن علی

حدثنا بن عیینة عن عمرو عن محمد بن علی قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم انما فاطمة بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی؛ بن عینیہ نے ہمیں بتایا، انہوں نے عمرو سے ، انہوں نے محمد بن علی سے کہ وہ کہتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔

[۶]

 عبدالله بن زبیر

حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: نا اِسْمَاعِیلُ بْنُ اِبْرَاهِیمَ، عَنْ اَیُّوبَ، عَنِ ابْنِ اَبِی مُلَیْکَةَ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ، عَنِ النَّبِیِّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم): ” اِنَّمَا فَاطِمَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا بَضْعَةٌ مِنِّی، یَغِیظُنِی مَا یَغِیظُهَا، وَقَالَ مَرَّةً اُخْرَی: وَیُؤْذِینِی مَا آذَاهَا؛ مؤمل بن ہشام نے ہمیں بتایا، وہ کہتے ہیں: ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے بتایا، انہوں نے ایوب سے، انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے ، انہوں نے ابن زبیر سے ، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا : فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے وجود کا ٹکڑا ہے ، مجھے اس نے غیظ و غضب کا شکار کیا جس نے اسے غیظ و غضب دلایا، اور دوسری مرتبہ فرمایا: اور مجھے وہ چیز اذیت دیتی ہے جو اس کو اذیت دے۔

[۷]

اس روایت کو ابواسحاق حربی نے بھی اس سند اور متن کے ساتھ نقل کیا ہے
حدثنا مسدد حدثنا اسماعیل عن ایوب عن ابن ابی ملیکة عن ابن الزبیر قال النبی صلی الله علیه: فاطمة بضعة منی. ینصبنی ما انصبها؛ مسدد نے ہمیں بتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں اسماعیل نے بتایا، انہیں ایوب نے ، انہیں ابن ابی ملیکہ نے ، انہیں ابن زبیر نے کہ نبیؐ فرماتے ہیں: فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہیں ، مجھ سے اس نے مجھے ضعیف وکمزور کیا جس نے اسے ضعیف و کمزور کیا۔

[۸]

 ام المومنین عائشہ

بعض روایات مرسل طور پر نقل ہوئی ہیں جن میں وارد ہوا کہ رسول اللہ ؐ نے اسی مطلب کو ام المؤمنین عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے بیان کیا، جیساکہ وارد ہوا ہے:
وروی عنه (ص) انه قال لعائشة رضی الله عنها ‘ یا عائشة فاطمة بضعة منی یریبنی ما یریبها؛ رسول اللہ ؐ سے مروی ہے کہ آپؐ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ! فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے ، مجھے وہ چیز تکلیف دیتی ہے جو اسے تکلیف دے۔

[۹]

ابو اسحاق شیرازی بیان کرتے ہیں کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ اولاد اپنے باپ کے جسم کا حصہ شمار ہوتی ہے:
ولان الولد بضعة من الوالد ولهذا قال علیه الصلاة السلام یا عائشة ان فاطمة بضعة منی یریبنی ما یریبها؛ کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا ٹکڑا ہوتا اس لیے گواہی قبول نہیں ، جیساکہ آپ علیہ الصلاة و السلام نے فرمایا: اے عائشہ بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے، مجھے اس نے اذیت دی جس نے اس کو اذیت دی۔

[۱۰]

 نتیجہ

ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ یہ روایت فاطمة بضعة منی اہل سنت کتب میں فقط مسور بن مخرمہ ناصبی سے نقل نہیں ہوئی بلکہ متعدد صحابہ کرام جیسے امام علی ؑ، جناب انس بن مالک، عمرو بن حزم، محمد ابن حنفیہ، ابو ہریرہ، جناب عائشہ وغیرہ سے نقل ہوئی ہے اور کئی اکابرِ محدثین و فقہاء نے اس کو اپنی کتابوں میں مختلف طرق سے مختلف ابواب کے تحت ذکر کیا ہے۔

دوسرے شبہ کا جواب

جہاں تک اس شبہ کا تعلق ہے کہ روایت کا یہ حصہ ان الله یغضب لغضبک کہ اللہ فاطمہؑ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہو جاتا ہے، حسین بن زید کی وجہ سے مردود ہے تو یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ بزرگانِ اہل سنت نے خود اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور حدیث کے اس حصے کی تائید کی ہے، جیساکہ متعدد محدثین نے اس حدیث پر صحیح یا حسن کا حکم لگایا ہے:
حدثنا محمد بن عبد اللَّهِ الْحَضْرَمِیُّ حدثنا عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدِ بن سَالِمٍ الْقَزَّازُ حدثنا حُسَیْنُ بن زَیْدِ بن عَلِیٍّ عن عَلِیِّ بن عُمَرَ بن عَلِیٍّ عن جَعْفَرِ بن مُحَمَّدٍ عن ابیه عن عَلِیِّ بن الْحُسَیْنِ عَنِ الْحُسَیْنِ بن عَلِیٍّ رضی اللَّهُ عنه عن عَلِیٍّ رضی اللَّهُ عنه قال قال رسول اللَّهِ صلی اللَّهُ علیه وسلم لِفَاطِمَةَ رضی اللَّهُ عنها ان اللَّهَ یَغْضِبُ لِغَضَبِکِ وَیَرْضَی لِرَضَاکِ؛ ہمیں محمد بن عبد اللہ حضرمی نے بتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد اللہ بن محمد بن سالم قراز نےبتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں حسین بن زید بن علی بن عمر بن علی نے بتایا، انہوں نے جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد گرامی سے ، انہوں نے علی بن حسین سے ، انہوں نے حسین بن علی سے ، انہوں نے علی (علیہم السلام) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بے شک اللہ آپ کے غضبناک ہونے کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی رضایت سے راضی ہوتا ہے۔

[۱۱]

حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
هذا حدیثٌ صحیحُ الاسنادِ وَلَم یُخرِجاهُ؛ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگرچے اس کو بخاری و مسلم نے نقل نہیں کیا۔

[۱۲]

ہیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں
رواهُ الطبرانی واسنادُهُ حَسَنٌ؛ طبرانی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔

[۱۳]

نیز اس حدیث مبارک کو اکابر محدثین نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے، جیساکہ ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب الآحاد والمثانی

[۱۴]

، ابو یعلی موصلی نے معجم أبی یعلی

[۱۵]

، غَطریفی نے جزء ابن غطریف

[۱۶]

، ابو نعیم اصفہانی نے فضائل الخلفاء الاربعہ

[۱۷]

اور ابن المغازلی نے مناقب علیؑ

[۱۸]

میں اس کو نقل کیا ہے۔

اس کے علاوہ حاکم نیشاپوری نے کتاب فضائل فاطمہ الزہراءؑ میں اپنے طریق سے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے جو گذشتہ اسانید اور محدثین کی جانب سے اس پر لگائے ہوئے حکم کی مزید تقویت کا باعث ہے:
وحدثنی عبد العزیز بن عبد الملک الأموی، حَدَّثَنَا سلیمان بن أحمد بن یحیی، حَدَّثَنَا محمود بن الربیع العامری، حَدَّثَنَا حماد بن عیسی غریق الجحفة، قال: حدثتنا طاهرة بنت عمرو بن دینار قالت : حدثنی أبی، عن عطاء، عن جابر رَضِی الله عَنْه قال: قال رسول الله صَلَّی الله عَلَیهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لفَاطِمَة: إن الله تعالی یغضب لغضبک ویرضی لرضاک؛ اور مجھ سے عبد العزیز بن عبد الملک اموی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم سے سلیمان بن احمد بن یحیی نے، وہ کہتے ہیں ہمیں محمود بن ربیع عامری نے بتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں حماد بن عیسی جو مقامِ جحفہ میں ڈوب گئے نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں طاہرہ بنت عمرو بن دینار نے بیان کیا، وہ کہتی ہیں مجھے میری والد نے بیان کیا، انہوں نے عطاء سے اور عطاء نے جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ (علیہا السلام) سے فرمایا: بے شک اللہ تعالی آپ (علیہا السلام) کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے۔

[۱۹]

حوالہ جات

 
   

۲.

 بزّار، احمد بن عمرو، البحر الزخار (مسند البزار)، ج۲، ص۱۵۹-۱۶۰۔    

۳.

 حربی، ابراہیم بن اسحاق، غریب الحدیث، ج۳، ص۱۱۸۶۔    

۴.

 اصفہانی، احمد بن عبد الله، حلیہ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج۲، ص۴۱۔    

۵.

 نصیبی، ابو بکر بن خلاد، فوائد ابی بکر النصیبی، ص۲۲۲۔    

۶.

 ابن ابی شیبہ، عبد الله بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ج۶، ص۳۸۸۔    

۷.

 بزّار، احمد بن عمرو، البحر الزخار (مسند البزار)، ج۶، ص۱۵۰۔    

۸.

 حربی، ابراہیم بن اسحاق، غریب الحدیث، ج۲، ص۷۹۲۔    

۹.

 ماوردی بصری، علی بن محمد، الحاوی الکبیر فی فقہ مذہب الامام الشافعی (شرح مختصر المزنی)، ج۱۷، ص۱۶۴۔    

۱۰.

 شیرازی شافعی، ابراہیم بن علی بن یوسف، المہذب فی فقہ الامام الشافعی، ج۳، ص۴۴۷۔    

۱۱.

 طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج۲۲، ص۴۰۱۔    

۱۲.

 حاکم نیشابوری، محمد بن عبد الله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۶۷۔    

۱۳.

 ہیثمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج۹، ص۲۰۳۔    

۱۴.

 ، ابن ابی عاصم، أحمد بن عمرو بن الضحاک، الأحاد والمثانی، جزء:۵، ص ۳۶۳، حدیث:۲۹۵۹۔    

۱۵.

 ابو یعلی، احمد بن علی، معجم أبی یعلی، ص ۱۹۰، حدیث:۲۲۰۔    

۱۶.

 غطریفی، محمد بن أحمد، جزء ابن غطریف، ص ۷۸، حدیث ۳۱۔    

۱۷.

 ابو نعیم اصفہانی، احمد بن عبد اللہ، فضائل الخلفاء الأربعۃ وغیرھم، ج ۱، ص ۱۲۴، حدیث:۱۴۱۔    

۱۸.

 ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب أمیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ج۱، ص ۴۱۷، حدیث:۴۰۲۔    

۱۹.

 حاکم نیشابوری، محمد بن عبد اللہ، فضائل فاطمہ الزہراء، ص ۴۶، حدیث:۲۱۔    

 

About Admin