اھم ترین

ضعیف روایت – کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر – رد شبہات و ناصبیت

ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت

ضعیف روایت – کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر  

نواصب کتاب ( مناقب اہل بیت , ص 257 و بحار ص 283 ) سے ایک روایت لاتے ہیں کہ خداوند و تعالیٰ امیر المومنین ع کے شیعوں گناہوں کو رسول خدا ص کے کندھوں پر ڈال دیا ہے ۔جیسے کہ اِنکی کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے

….إن الله سبحانه حمّل محمدا ( صلى الله عليه و آله ) ذنوب شيعة علي (عليه السلام)، ثم غفر له ما تقدم منها و ما تأخر.  [البرهان فی تفسیر القران بحوالہ تاویل الایات،1/591] 

 اللہ نے شیعیانِ علی کے گناہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ کے کاندھوں پر ڈال کر اگلے پچھلے سب معاف فرما دئیے ہیں۔

ناصبیوں کو نہ یہ پتہ کہ عقیدہ کسے کہتے ہیں اور نہ یہ علم کہ عقیدہ کس دلیل سے لیا جاتا ہے چلے اعتراض کرنے۔جناب آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمارے عقائد خبر واحد(وہ بھی ضعیف)سے حاصل شدہ نہیں ہیں۔

اس روایت کی سند

ابن بابويه، قال: حدثنا سعد بن عبد الله، عن محمد بن عيسى، عن علي بن مهران، عن علي بن عبد الغفار، عن صالح بن حمزة- و يكنى بأبي شعيب-، عن محمد بن سعيد المروزي، قال: قلت لرجل۔۔  

اولا-سند میں موجود علی بن مہران اور صالح بن حمزہ مجہول الحال ہیں۔اسی لئے السید الخوئی رحمہ اللہ علیہ نے معجم الرجال میں انکا ذکر کرتے ہوئے راوی، مروی عنہ اور کتب اربعہ میں انکی روایات کو بیان کرنے بعد چھوڑ دیا اور علماء رجال میں سےکسی رجالی کا کلام نقل نہیں کیا۔اور اسی طرح علی بن عبد الغفار کی توثیق بھی موجود نہیں ہے۔

ثانیا-«قلت لرجل۔۔»میں یہ رجل کون ہیں ؟ یہ بھی مجہول ہے۔اور ہمارے لئے تو معصوم کی کلام حجت ہے۔

کیونکہ بس اعتراض کرنا مقصود ہوتا ہے اس لئے آگے پیچھے نہیں دیکھتے حالانکہ اسی كتاب(البرهان)میں  روایات ہیں جو اس قسم کی روایت کی وضاحت کرتی ہیں بطور مثال

1-«۔۔الله سبحانه ضمن له أن يغفر ذنوب شيعة علي (عليه السلام) ما تقدم من ذنبهم و ما تأخر».  [البرهان فی تفسیر القران] اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ کو ضمانت دی ہے کہ وہ شیعیان علی کے گناہ معاف فرمائے گا۔

2-«يا علي إن شيعتك مغفور لهم على ما كان فيهم من ذنوب وعيوب يا علي أناالشفيع لشيعتك غدا إذ أقمت المقام المحمود فبشرهم بذلك  [البرهان سورة إسراء آية 79، امالی الصدوق – مجلس 4 صفحه۲۱]”اے علی آپ کے شیعیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے کل جب میں مقام محمود پر کھڑا ہوں گا تو انکو شفاعت کروں گا”

مقام محمود اور شفاعت عظمی کا عقیدہ تمام مسلمان رکھتے ہیں اور اس بات(یعنی رسول اکرم صلی کے کاندھوں پر ڈال دئیے جائیں گے) سے مراد بھی شفاعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی ہے۔اسی لئے تفسیر مجمع البیان میں الفتح آية2 کے ذیل میں اس روایت کو شفاعت کے معنی میں لیا ہے۔

عمل سے دور ہم نہیں کرتے بلکہ یہ کام آپ کے آقا حضرت عمر بن خطاب کر کے گئے اور اس قسم کی روایات بیان کی بطور مثال

السيوطي في الدر المنثور ،7/25

(وأخرج العقيلي وابن هلال وابن مردويه والبيهقي من وجه آخر عن عمر بن الخطاب سمعت رسول الله (ص) يقول: سابقنا سابق، ومقتصدنا ناج، وظالمنا مغفور له،

حضرت عمر بن خطاب نے کہا کہ میں نے رسول اکرم ص سنا کہ ہمارا سابق سبقت لے جانے والا ہے اور درمیانہ نجات پائے گا اور ظالم کو معاف کر دیا جائے گا۔

صحیح بخاری ،2/122

(عن أبی الاسود۔۔۔جلست إلى عمر بن الخطاب فمرت بهم جنازة۔۔۔۔۔ أيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة، فقلنا وثلاثة قال: وثلاثة. فقلنا واثنان قال: واثنان. ثم لم نسأله عن الواحد”کسی مسلمان میت کے حق میں چار بندے اچھائی کی گواہی دے دیں تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا”

الدر المنثور ،8/337

۔۔أن كعباً دخل يوماً على عمر بن الخطاب فقال له عمر: حدثني إلى ما تنتهي شفاعة محمد يوم القيامة؟۔۔۔۔۔فقال كعب:فيشفع يومئذ حتى يبلغ من لم يصل صلاة قط ويطعم مسكيناً قط ومن لم يؤمن ببعث قط، فإذا بلغت هؤلاء لم يبق أحد فيه خير۔) حضرت عمر بن خطاب نےکعب سے پوچھا محمد کی شفاعت کہاں تک پہنچے گی تو اس نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ شفاعت کریں گے حتی ان لوگوں کی بھی جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی ہو گی،جس نے کبھی مسکین کو کھانا نہیں کھلایا ہو گا،اورحتی کہ جو قیامت پر بھی ایمان نہ رکھتا ہو گا اسکو شفاعت نصیب ہو گی”

لیں جناب

عمل تو پیچھے رہ گئے عقیدہِ معاد کی بھی چھٹی کرا دی۔

جو اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ کر کعب الاحبار جیسوں کے در پر جائیں گے ان سے یہ بعیدنہیں۔

ہاں اگر ناصبی مزاج لوگ شفاعت والی روایات کا انکار کریں تو بات بنتی ہے کیونکہ انکو شفاعت نصیب ہی نہیں ہو گی۔

«يا علي، إن ربي عز و جل ملكني الشفاعة في أهل التوحيد من امتي، و حظر ذلك على من ناصبك أو ناصب ولدك من بعدك».  [البرهان فی تفسیر القران سورہ اسراء آیت 79]

اے علی میرے رب نے مجھے صاحبانِ توحید کی شفاعت کا حق دیا ہے۔جبکہ تیرے اور تیری اولاد کے ساتھ دشمنی کرنے والے ناصبی کی شفاعت کا حق نہیں دیا

یعنی شیعہ ہی اہل توحید ہیں۔

ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت
ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت
ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت
ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت
ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت
ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت
ضعیف روایت - کیا شیعوں کے گناہ رسول خدا ص کے کندھوں پر - رد شبہات و ناصبیت

مزید حوالاجات کے لئے یہاں کلک کریں

https://shiahaq.com/category/shia-sunni-section/

About Admin